وبا کے دنوں میں حماقت کا بوجھ

ناصر منصور

اس شخص کو کیا کہیں جو وزير اعظم کے طور پر ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے جو افتاد کی اس گھڑی میں عملی اقدام کی بجائے ہفتہ میں تیسری بار عوام کو صرف یہ پیغام دینے آیا ہے کہ جاگتے رہنا اور ہمارے آسرے میں نہ رہنا. مشکل یہ ہے کہ عوام کو وبا سے لڑنے کے ساتھ ساتھ حماقت کی اس گانٹھ کا بوجھ بھی برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

یہ کیا شخص ہے یارو کہ ایک طرف تو کہہ رہا ہے کہ لاک ڈاؤن نہیں کرسکتے کیوں کہ ڈیلی ویجرز بھوکے مر جائیں گے اور دوسری طرف عوام جن میں دھیاڑی دار بھی شامل ہیں سے اپیل کر رہا ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر گھروں میں بیٹھ جائیں. اگر عوام اپیل پر عمل کرتے ہوئے گھروں میں رہتے ہیں تو یہ لاک ڈاون نہیں تو کیا ہے. اگر سارے لوگ گھروں میں محصور ہو جائیں گے تو ڈیلی ویجرز کے ذرائع معاش بھی ختم ہو جائیں گے، اس عقل مند کو کون سمجھائے کہ یہ لاک ڈاؤن ہی ہے اور اسے سرکاری طور اس کا اعلان کردینا چاہیے تھا۔

پاکستان کو اس وقت وبا کی شدید زد میں آنے والے ممالک کی اس فہرست میں ڈالا گیا ہے جس میں ایران جیسا ملک شامل ہے اور جہاں سرکاری اعلان کے مطابق 1550 افراد اس موذی وبا کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں. پاکستان کا نظام صحت انتہائی ناقص اورعام حالات میں بھی کام کے قابل نہیں تو پھرایمرجنسی کی صورت میں نبردآزما ہونے میں مکمل طور پر ناکام رہے گا. اس لیے اس طرح کی صورت حال میں احتیاط ہی پہلا اور آخری حربہ ہے جو ممکنہ تباہی سے بچا سکتا ہے. کوئی ہے جو وزیراعظم کو سمجھائے، شائد اس کو لانے والے ہی کچھ عقل کے ناخن لیں، موت پر پھیلائے سامنے کھڑی ہے اور اس سے بچنے کا حل بھی سامنے ہے اور وہ ہے مکمل لاک ڈاؤن، گھروں پر رہیے، اپنی اور دوسروں کی زندگی بچائیَے۔

ہاں اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ ہم اپنے ان نیم دلی کے ساتھ کیے گیے ناکافی اقدامات کے باوجود اس وبائی عفریت سے بچ نکلیں لیکن اس میں یہ امکان بھی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے کہ اگر یہ وبا پوری قوت سے آبادی میں سرایت کر گئی تو پھرہمارا حشرچین، اٹلی، اسپین اورایران سے بھی بدتر ہوگا کیوں کہ ہمارے پاس وبا سے نمٹنے کے لیے نہ ہی اتنے اسپتال ہیں، نہ ہی ٹرینڈ میڈیکل عملہ اور نہ ہی وسائل۔

ہم نے دیکھ رکھا ہے کہ زلزلہ اورسیلاب جیسی آفات کے دوران ہماری ریاست کا ردعمل انتہائی ناقص اورعامیانہ رہا ہے. اس وقت بھی جب تیزی سے پھیلتی وبا اپنے اندر زبردست تباہی کے امکانات لیے ہوئے ہے وفاق اور اس کے زیرِ اثر تین صوبائی حکومتیں ( پنجاب، خیبر پختون خواہ، بلوچستان) مجرمانہ غفلت کا شکار ہیں اور سامنے آتے خطرے کو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے ٹالنے کی متمنی ہیں۔

سندھ حکومت نے صورت حال کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے کچھ بروقت فیصلے کیے ہیں جن میں لاک ڈاؤن بھی شامل ہے، جس پر عمل سے وبا کی تباہ کاریوں سے بچا جا سکتا ہے. لیکن اس کے لیے دیگر صوبائی حکومتوں اوروفاق کو بھی فوراً سندھ کے نقشِ قدم پر چلنا ضروری ہوگیا ہے۔

بیس کروڑ سے زائد کی آبادی والا ملک جہاں ریاست اور حکومتوں نے دہائیوں سے صحت کے بدلے سیکورٹی کو ہی اولیت دی ہے اس کے لیے ناممکن ہے وہ اس طرح کی مہلک افتاد سے اپنے شہریوں کو بچانے کی سکت یا استعداد رکھتی ہے تو پھر ضروری ہے کہ احتیاطی تدابیر اختیارکی جائیں نہ کہ پاگلوں کہ طرح انانیت کی رو میں بہہ کر میں نہ مانوں کی رٹ لگا رکھی جائے. اگر سندھ حکومت نے
موجودہ حالات میں بہترپیش بندی کرہی دی ہے تو اس تقلید کرنے سے کسی کی شان میں کمی نہیں آئے گی۔

موجودہ حالات میں وبا سے فرنٹ لائن پر لڑنے والے میڈیکل شعبہ کے ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل اسٹاف، فارماسسٹ، نرسز اور دیگر عملہ قابل تحسین ہیں جو اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر نوع انسانی کے بچاؤ کا افضل ترین فریضہ انجام دے رہے ہیں. جب کہ ڈیپارٹمنٹل اسٹورزکے ملازمین، کریانہ اسٹور والے، غذا کی ترسیل سے منسلک جن میں سبزی منڈی، گوشت، دودھ دہی، بیکریز اور اس سے ملحقہ ذرائع نقل و حمل کے تمام مزدور احترام کے قابل ہیں جو وبا کے دنوں میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر شہریوں کو اشیاء ضرورت فراہم کر رہے ہیں. ذرائع ابلاغ سے وابستہ تمام ملازمین کے لیے احترام جو کروڑوں انسانوں کو حالات سے آگاہ اور احتیاطی تدابیر بتا رہے ہیں۔ ایدھی کے رضاکارخصوصی طور پر سلامِ عقیدت کے لائق ہیں جنہوں نے نہایت عسرت میں خود کو اس ناگہانی آفت سے لڑنے کے لیے تیار کیا اور خود اپنی زندگیوں کو ہر لمحہ خطرنے میں ڈال کر کرونا وائرس متاثرین کو ہر قسم کی مدد باہم پہنچا رہے ہیں. عبدالستار ایدھی کی درخشاں روایت کو زندہ رکھنے پر فیصل ایدھی اوران کے ادارے کے رضاکاروں کو سلام۔

ہر بار کی طرح اس بار بھی یہ شرم ناک حقیقت سامنے آئی ہے کہ اس وبائی عفریت کو شکست دینے جہاں سماج کا ہر حصہ اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار کھڑا ہے وہاں دولت مند طبقہ کو جیسے سانپ ہی سونگھ گیا ہے وہ کہیں بھی نظر نہیں آرہا ہے . صنعت کار اور ان کی تنظیموں کا گھناؤنا کردار ایک بار پھرسامنے آگیا ہے، وہ مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئی ہیں. یہ وہ طبقہ ہے جس نے ریاستی مراعات لینی ہوں تو یہ سب سے آگے ہوتا ہے لیکن اس الم ناک صورت حال میں اپنی محفوظ پناہ گاہوں جا چھپا ہے. اپنے فیکٹری مزدوروں کو تنخواہ کے ساتھ رخصت دینے سے انکاری ہے، اکثر فیکٹریوں میں غیر اعلانیہ” لے آف” کر دیا گیا ہے اور مزدوروں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

حکومتِ سندھ جہاں حفاظتی اقدام کے طور لاک ڈاؤن کا اعلان کر رہی ہے وہیں فیکٹری اور دیگر اداروں کے مالکان کو بھی پابند کرے کہ وہ مزدوروں اور ملازمین کو تن خواہ کے ساتھ رخصت دیں اور ڈیلی ویجرز کے لیے معاشی پیکج کا اعلان کرے. وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے بھی اس قسم کے فیصلوں کا مطالبہ ہے۔

لیکن سب سے پہلے انسانی زندگی کو بچانے کے لیے احتیاطی لائحۂ عمل وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس کے لیے ہمارے جیسے ملک کے لیے وبا سے شہریوں کو بچانے کا موثر حربہ مکمل “لاک ڈاؤن” ہی ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *