کراچی چڑیا گھراور بے چارے جانور

از: فاریحہ سلیم، مہوش اقبال، مدحت زہرہ

گندے پانی میں تیرتی یہ بطخیں، چلو بھر گندے پانی میں بیٹھے یہ کچھوے، پنجرے میں قید مایوس بندر، جھلسانے والی دھوپ میں لوہے کے پنجرے میں سائے کی تلاش کرتا کالا بھالو آخر کیوں پریشان ہیں؟

17 سالہ ہتھنی نور جہاں کی ناساز طبعیت کا سن کر جب ہم  کراچی چڑیا گھر پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ چڑیا گھر میں  ہتھنی نور جہاں ہی نہیں بلکہ باقی جانوروں کا بھی کوئی خاص پر سان حال نہیں۔ تقریباً تما م جانورہی

پریشانی سے دوچارنظر آئے ۔ 

کراچی چڑیا گھر میں اکثر جانوروں کا براحال ہے۔ انتظامیہ کی بے حسی اور لا پرواہی کی بدولت ہتھنی نور جہاں تو زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے۔ میڈیا کی بدولت نورجہاں کی تو کچھ دیکھ بھال ہورہی ہے، مگر

دیگر بڑے جانور خوراک اور پانی کی کمی کا شکار نظر آتے ہیں۔

کراچی چڑیا گھر کی حالت زار

شیر، بھالو، بندر، کچھوےاور مگرمچھوں کی حالت زار کوئی بہتر نہیں ہے، جن میں سے اکثر شدید خوراک کی کمی کا شکارنظر آرہے تھے۔ پچھلے دنوں، چڑیا گھر میں جانوروں کو خورک مہیا کرنے والےٹھیکیدار نے میں مبتلا ہوگئے۔دیگر بڑے جانور خوراک اور پانی کی کمی کا شکار نظر آتے ہیں۔ زو انتظامیہ پرکرپشن کے الزام لگائے جس کےباعث جانوروں کی خوراک کی فراہمی متاثر ہوئی ہے۔ آج نیوز کے نمائندوں کی ایک ٹیم میں مبتلا ہوگئے۔دیگر بڑے جانور خوراک اور پانی کی کمی کا شکار نظر آتے ہیں۔نےکراچی چڑیا گھر کا جب دورہ کیا اوراکثر جانوروں کی حالت زار دیکھ کر تشویش

میں مبتلا ہوگئے۔دیگر بڑے جانور خوراک اور پانی کی کمی کا شکار نظر آتے ہیں۔

ہتھنی نورجہاں کی صحت سے متعلق بین الاقوامی تنظیم فور پازکی کاوشیں قابل تحسین ہیں مگر نورجہاں اس حالت میں کیسے پہنچی اور اس کی اس حالت تک پہنچنے کے ذمہ دار کون ہے؟ یہ تمام سوال حکومت وقت کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔

سحرغازی جو وائس ورلڈ نیوز کی ساوتھ ایشیاء ایڈیٹر ہیں، ان کے مطابق ایک افریقن ہاتھی کی عمر 70 سال ہوتی ہے جبکہ کراچی میں موجود ہتھنی نور جہاں کی عمرصرف 17 سال ہے۔

انتظامیہ کی واضح غفلت کے باعث کم عمر نور جہاں اس وقت موت کےدوراہے پر کھڑی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے نور جہاں اپنے پیروں پر چلنے سے قاصر ہو گئی تو جانوروں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں کی

توجہ کا مرکز بن گئی۔

مگر نورجہاں کو مناسب طبی امداد مہیا کرنے میں بہت تاخیر ہوگئی تھی کیوں کہ پاکستان میں ہاتھی جیسے بڑے جانور کے علاج کے لیے کوئی طبی سہولت مہیا ہی نہیں۔ انتہائی اذیت اور تکلیف برداشت کرنے کے بعد آخرکار نور جہاں مستقل اُٹھنے سے بھی محروم ہوگئی۔

آج سوال ایک ہتھنی کا نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی جان کا ہے۔ آخر ان کی خوراک اور دیکھ بھال کے لیے ملنے والے فنڈز کہاں جاتے ہیں؟ آخر کیوں کراچی کے چڑیا گھر کے جانور بے موت مر رہے ہیں۔ انتظامیہ اپنی غفلت کو چھپانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے، اب تو نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ ہتھنی نور جہاں کی خبر گوئی کے لیے میڈیا کا چڑیا گھر میں داخلہ بھی ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ جب وہاں کے سیکورٹی گارڈ سے ہتھنی کے متعلق دریافت کیا گیا تو اُن کے جواب میں بے حسی صاف نمایاں تھی۔

“ایک ہتھنی نہ ہوگئی پتا نہیں کیا ہوگیا، ایک ہتھنی نے پورا کراچی سر پر اُٹھا رکھا ہے،” سیکیورٹی کارڈکہتا ہوا سنا گیا۔ چڑیا گھر میں جانوروں کو کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی کا بھی سامنا بھی کرنا پڑرہا ہے۔اس سے قبل بھی کراچی کے چڑیا گھر میں نمونیہ کے باعث سفید شیر اور اکیلے پن کے باعث زیبرہ بھی موت کی نیند سو چکے ہیں۔ جانوروں کی طبعی امداد کے لیے کراچی کے چڑیا گھر میں بنیادی سہولیات تک میسر نہیں۔ ہمارے خیال میں یہ مطالبہ جائز ہے کہ کراچی زو کو ختم کرکےوہاں سے تمام جانوروں کو ہٹایا جائے۔ ملک میں موجود دیگر چڑیاگھروں کو بھی مرحلہ وار ختم کردینا چاہیے۔؎

Photo courtesy: Aaj News and Fariha Saleem

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *